دور سے آئے تھے ساقی سن کے میخانے کو ہم
بس ترستے ہی چلے افسوس، پیمانے کو ہم
مے بھی ہے، مِینا بھی ہے، ساغر بھی ہے ساقی نہیں
دل میں آتا ہے لگا دیں آگ مے خانے کو ہم
کیوں نہیں لیتا ہماری تُو خبر، اے بے خبر
ہم کو پھنسنا تھا قفس میں، کیا گِلہ صیاد کا
بس ترستے ہی رہے ہیں آب اور دانے کو ہم
طاقِ ابرو میں صنم کے، کیا خدائی رہ گئی
اب تو پوجیں گے اسی کافر کے بت خانے کو ہم
باغ میں لگتا نہیں، صحرا سے گھبراتا ہے دل
اب کہاں لے جا کے بیٹھیں ایسے دیوانے کو ہم
کیا ہوئی تقصیر ہم سے، تُو بتا دے اے نظیرؔ
تاکہ شادئ مرگ سمجھیں ایسے مر جانے کو ہم
اس آئینہ رو کے ہے تصور میں نظیرؔ اب
حیرت زدہ نظارہ، پریشاں ہم تن چشم
اس آئینہ رو کے ہے تصور میں نظیرؔ اب
حیرت زدہ نظارہ، پریشاں ہم تن چشم
نظیر اکبر آبادی
No comments:
Post a Comment