Friday 27 November 2015

دور سے آئے تھے ساقی سن کے مے خانے کو ہم

دور سے آئے تھے ساقی سن کے میخانے کو ہم
بس ترستے ہی چلے افسوس، پیمانے کو ہم
مے بھی ہے، مِینا بھی ہے، ساغر بھی ہے ساقی نہیں
دل میں آتا ہے لگا دیں آگ مے خانے کو ہم
کیوں نہیں لیتا ہماری تُو خبر، اے بے خبر
کیا تِرے عاشق ہوئے تھے، درد و غم کھانے کو ہم
ہم کو پھنسنا تھا قفس میں، کیا گِلہ صیاد کا
بس ترستے ہی رہے ہیں آب اور دانے کو ہم
طاقِ ابرو میں صنم کے، کیا خدائی رہ گئی
اب تو پوجیں گے اسی کافر کے بت خانے کو ہم
باغ میں لگتا نہیں، صحرا سے گھبراتا ہے دل
اب کہاں لے جا کے بیٹھیں ایسے دیوانے کو ہم
کیا ہوئی تقصیر ہم سے، تُو بتا دے اے نظیرؔ
تاکہ شادئ مرگ سمجھیں ایسے مر جانے کو ہم
اس آئینہ رو کے ہے تصور میں نظیرؔ اب
حیرت زدہ نظارہ، پریشاں ہم تن چشم

نظیر اکبر آبادی

No comments:

Post a Comment