کبھی کبھی تو بہت یاد آنے لگتے ہو
کہ روٹھے ہو کبھی اور منانے لگتے ہو
گِلہ تو یہ ہے تم آتے نہیں کبھی، لیکن
جب آتے بھی ہو تو فوراً ہی جانے لگتے ہو
یہ بات جونؔ تمہاری مذاق ہے کہ نہیں
تمہاری شاعری کیا ہے بھلا، بھلا کیا ہے
تم اپنے دل کی اداسی کو گانے لگتے ہو
سرودِ آتشِ زرین صحنِ خاموشی
وہ داغ ہے جسے ہر شب جلانے لگتے ہو
سنا ہے کاہکشاؤں میں روز و شب ہی نہیں
تو پھر تم اپنی زباں کیوں جلانے لگتے ہو
جون ایلیا
No comments:
Post a Comment