Sunday, 29 November 2015

کبھی کبھی تو بہت یاد آنے لگتے ہو

کبھی کبھی تو بہت یاد آنے لگتے ہو
کہ روٹھے ہو کبھی اور منانے لگتے ہو
گِلہ تو یہ ہے تم آتے نہیں کبھی، لیکن
جب آتے بھی ہو تو فوراً ہی جانے لگتے ہو
یہ بات جونؔ تمہاری مذاق ہے کہ نہیں
کہ جو بھی ہو اسے تم آزمانے لگتے ہو
تمہاری شاعری کیا ہے بھلا، بھلا کیا ہے
تم اپنے دل کی اداسی کو گانے لگتے ہو
سرودِ آتشِ زرین صحنِ خاموشی
وہ داغ ہے جسے ہر شب جلانے لگتے ہو
سنا ہے کاہکشاؤں میں روز و شب ہی نہیں
تو پھر تم اپنی زباں کیوں جلانے لگتے ہو

جون ایلیا

No comments:

Post a Comment