ہر چوٹ ابھر سی جاتی ہے ہر زخم ہرا ہو جاتا ہے
مدت میں کوئی جب ملتا ہے غم اور سوا ہو جاتا ہے
جب گرم جہاں میں معرکۂ تسلیم و رضا ہو جاتا ہے
منہ دیکھتی رہ جاتی ہے خِرد دل بڑھ کے فدا ہو جاتا ہے
جب حسنِ پشیماں گھبرا کے مائل بہ وفا ہو جاتا ہے
میں عشق سے توبہ کر لوں مگر یہ بجلی گرے گی اوروں پر
اک میری تباہی سے ناصح! کتنوں کا بھلا ہو جاتا ہے
ہر چند محبت راز رہے، اک نغمۂ بے آواز رہے
دنیا کو خبر ہو جاتی ہے، ہنگامہ بپا ہو جاتا ہے
تسلیم کہ ساغر ہاتھ میں ہے اور لب بھی نہیں ہیں دور مگر
پیمانے کا ہونٹوں تک آنا، نادان بلا ہو جاتا ہے
افسانے محبت کے سن کر سر دُھنتے ہیں دنیا والے مگر
جب کوئی محبت کرتا ہے، ہر شخص خفا ہو جاتا ہے
ملنے کو خمارؔ اس دنیا میں ملتے ہیں ہزاروں دوست مگر
اک مخلص تنہا غم کے سوا ہر دوست جدا ہو جاتا ہے
خمار بارہ بنکوی
No comments:
Post a Comment