تخت نشین تھی عشق کی پھر بھی دل کی بازی ہاری سائیں
تیرا مذہب دنیا داری، میں الفت کی ماری سائیں
مثلِ خوشبو مہکی تھی میں اس کے وصل کی چھاؤں میں کل
سر پر تپتی دھوپ کھڑی اب، ساتھ میں ہجر کی باری سائیں
ہر اک موڑ پہ دل نے تجھ کو کیسے اپنا مان لیا ہے
گھِر کر آیا درد کا ساون، جل تھل جل تھل من کا آنگن
دکھ کے آنسو کب رک پائیں، ان کی برکھا جاری سائیں
لازم ہے اب دل بھی اجڑے، ساجن سے ساجن بھی بچھڑے
ہر جانب اک شور کا میلہ، اور دولت کے پجاری سائیں
تیرے ہر اک زخم کو اپنی روح کا اس نے زیور جانا
کیسے سج کر پھِرتی ہے، اب تیری راج دلاری سائیں
درد وچھوڑا تُو کیا جانے، من مندر کو تُو کب مانے
دل کی دھڑکن کب پہچانے، تُو جذبوں سے عاری سائیں
کل سوچا تھا شعر میں تجھ سے سارے شکوے کر ڈالوں گی
آج غز ل کہنے بیٹھی تو کیوں اتنی دشواری سائیں
اپنے من کو آگ لگائی، اور پھر اس کی راکھ اڑائی
یوں ہی جلتے بجھتے شاہیںؔ ساری عمر گزاری سائیں
نجمہ شاہین کھوسہ
No comments:
Post a Comment