Sunday 29 November 2015

غم رہا جب تک کہ دم ميں دم رہا

غم رہا جب تک کہ دم ميں دم رہا 
دم کے جانے کا نہايت غم رہا 
دل نہ پہنچا گوشۂ داماں تلک 
قطرۂ خوں تھا مژہ پر جم رہا 
سنتے ہيں ليلیٰ کے خيمہ کو سياہ 
اس ميں مجنوں کا ولے ماتم رہا 
جامۂ احرام زاہد پر نہ جا 
تھا حرم ميں ليک نامحرم رہا 
اس کے لب سے تلخ ہم سنتے رہے 
اپنے حق ميں آب حيواں سم رہا 
حسن تھا تيرا بہت عالم فريب 
خط کے آنے پر بھی اک عالم رہا 
ميرے رونے کی حقيقت جس ميں تھی 
ايک مدت تک وہ کاغذ نم رہا 
صبح پيری شام ہونے آئی ميرؔ 
تُو نہ جيتا ہاں بہت دن کم رہا

مير تقی مير

No comments:

Post a Comment