لے کے دل مہر سے پھر رسمِ جفا کاری کیا
تم دل آرام ہو کرتے ہو دل آزاری کیا
تم سے جو ہو سو کرو ہم نہیں ہونے کے خفا
کچھ ہمیں اور سے کرنی ہے نئی یاری کیا
جوں حباب آئے ہیں ملنے کو نہ ہو چِیں بہ چِیں
تیغِ ابرو کی تو الفت نے کِیا دل کو دو نیم
دیکھیں اب کرتی ہے کاکل کی گرفتاری کیا
پھر سناں مژۂ دل پر وہ اٹھاتا ہے نظیرؔ
زخمِ شمشیر نگہ آہ نہیں کاری کیا
نظیر اکبر آبادی
No comments:
Post a Comment