Saturday 28 November 2015

لے کے دل مہر سے پھر رسم جفا کاری کیا

لے کے دل مہر سے پھر رسمِ جفا کاری کیا
تم دل آرام ہو کرتے ہو دل آزاری کیا
تم سے جو ہو سو کرو ہم نہیں ہونے کے خفا
کچھ ہمیں اور سے کرنی ہے نئی یاری کیا
جوں حباب آئے ہیں ملنے کو نہ ہو چِیں بہ چِیں
ہم سے اک دم کے لیے کرتے ہو بے زاری کیا
تیغِ ابرو کی تو الفت نے کِیا دل کو دو نیم
دیکھیں اب کرتی ہے کاکل کی گرفتاری کیا
پھر سناں مژۂ دل پر وہ اٹھاتا ہے نظیرؔ
زخمِ شمشیر نگہ آہ نہیں کاری کیا

نظیر اکبر آبادی

No comments:

Post a Comment