کیا ہُوا ایسا تمہارے شہر میں
میرا ہے چرچا تمہارے شہر میں
میری دل پُری کی خاطر ہی سہی
کوئی تو ہوتا تمہارے شہر میں
ہو گئی مسدُود ہر راہ فرار
حشر وہ اُٹھا تمہارے شہر میں
کرب پیہم کرب تنہائی کے بعد
کیوں نہ میں ٹُوٹا تمہارے شہر میں
میری سوچوں میں ہے وہ عکسِ جمال
تم کو بے دیکھے مِرے دل نے تمہیں
ٹُوٹ کر چاہا تمہارے شہر میں
سُنتے ہیں کوئی مریضِ لا علاج
ہو گیا اچھا تمہارے شہر میں
ڈُھونڈنے نکلے تو اے صادق کوئی
کیا نہیں ملتا تمہارے شہر میں
صادق اندوری
No comments:
Post a Comment