Sunday 29 November 2015

خدا کی دین ہے وہ عجز عشق بھی جس میں

خدا کی دین ہے وہ عجزِ عشق بھی جس میں
غرورِ حسن کے انداز پائے جاتے ہیں
فغاں، فغاں! کہ  جنہیں مارِ آستیں کہیے
وہ لوگ میرے رفیقوں میں پائے جاتے ہیں
مِری وفا پہ نہ جا حسن کی شکست کو دیکھ
تِری جفا کے قدم ڈگمگائے جاتے ہیں
اگرچہ اب مجھے غم راس آگیا، لیکن 
کسی کے لطف و کرم یاد آئے جاتے ہیں
وصال و ہجر کے پردے میں رات دن احسانؔ
حیات و موت کے خاکے بنائے جاتے ہیں

احسان دانش

No comments:

Post a Comment