Sunday, 29 November 2015

بدن بھیگیں گے برساتیں رہیں گی

بدن بھیگیں گے برساتیں رہیں گی
ابھی کچھ دن یہ سوغاتیں رہیں گی
تڑپ باقی رہے گی، جھوٹ ہے یہ
ملیں گے ہم، ملاقاتیں رہیں گی
نظر میں چہرہ کوئی اور ہو گا
گلے میں جھولتی بانہیں رہیں گی
سفر میں بیت جانا ہے دنوں کو
مسلسل جاگتی راتیں رہیں گی
زبانیں نطق سے محروم ہوں گی
صحیفوں میں مناجاتیں رہیں گی
مناظر دھند میں چھپ جائیں گے سب
خلا میں گھورتی آنکھیں رہیں گی
کہاں تک ساتھ دیں گے شہر والے
کہاں تک قید آوازیں رہیں گی

​آشفتہ چنگیزی

No comments:

Post a Comment