کس وقت اجالا پھیلے گا، اے صبح و مسا کی تیرہ شبی
کب آئے گا دورِ ساغرِ دل، اے کوثرِ جاں کی تشنہ لبی
سب سنگ بہ حبیب تھے، سر ہی نہ تھا، زخموں کا کوئی خوگر ہی نہ تھا
ہر شخص میں تھی درماں طلبی، کیا کج کلہی ، کیا کم لقبی
ہم بات کریں تو کس سے کریں، بنیاد رکھیں تو کس پہ رکھیں
سنسان پڑی ہیں برسوں سے سب رشد و ہدایت کی راہیں
اس عہد میں ہم سب اپنے امام، اس دور میں ہم سب اپنے نبی
میں سفلگیوں سے کھیلا ہوں، مٹی کہ تہوں سے لایا ہوں
تہذیب کا یہ معیارِ نظر، اخلاق کی یہ عالی نسبی
مصطفیٰ زیدی
No comments:
Post a Comment