حصارِ خود نگراں سے نکل کے دیکھتے ہیں
ہم آج انجمنِ جاں میں چل کے دیکھتے ہیں
رکے رکے سے شب و روز، منجمد لمحے
بساطِ زیست کے مہرے بدل کے دیکھتے ہیں
خود اپنے آپ درِ عافیت بھی وا ہو گا
نئی تلاش کے سانچوں میں ٹوٹ پھوٹ گئے
ذرا اصول و ضوابط میں ڈھل کے دیکھتے ہیں
بھٹک چکے ہیں بہت کوہ و دشت میں شاہدؔ
پھر اپنے گوشۂ عزلت میں چل کے دیکھتے ہیں
شاہد ماہلی
No comments:
Post a Comment