Sunday 22 November 2015

حصار خود نگراں سے نکل کے دیکھتے ہیں

حصارِ خود نگراں سے نکل کے دیکھتے ہیں
ہم آج انجمنِ جاں میں چل کے دیکھتے ہیں
رکے رکے سے شب و روز، منجمد لمحے
بساطِ زیست کے مہرے بدل کے دیکھتے ہیں
خود اپنے آپ درِ عافیت بھی وا ہو گا
ہم آج اہلِ زیاں خواب کل کے دیکھتے ہیں
نئی تلاش کے سانچوں میں ٹوٹ پھوٹ گئے
ذرا اصول و ضوابط میں ڈھل کے دیکھتے ہیں
بھٹک چکے ہیں بہت کوہ و دشت میں شاہدؔ
پھر اپنے گوشۂ عزلت میں چل کے دیکھتے ہیں

شاہد ماہلی

No comments:

Post a Comment