شہر خاموش ہے، سب نیزہ و خنجر چپ ہیں
کیسی افتاد پڑی ہے کہ ستم گر چپ ہیں
خوں کا سیلاب تھا، جو سر سے ابھی گزرا ہے
بام و در اب بھی سسکتے ہیں مگر گھر چپ ہیں
چار سو دشت میں پھیلا ہے اداسی کا دھواں
مطمئن کوئی نہیں نامۂ اعمال سے آج
مسکراتا ہے خدا، سارے پیمبر چپ ہیں
لوٹ کے آتی نہیں اب تو صدائے گنبد
چپ ہیں سب دیر و حرم، مسند و منبر چپ ہیں
میں جو خاموش تھا، اک شور تھا ہر محفل میں
میری گویائی پر اب سارے سخنور چپ ہیں
شاہد ماہلی
No comments:
Post a Comment