چشم ساقی سے جس نے جام لیا
اس نے پھر نشۂ مدام لیا
دل تغافل سے گر چلا جس دم
دستِ لطفِ صنم نے تھام لیا
صبح بہرِ سلام ہم نے نظیرؔ
سر جھکا رکھ کے ہاتھ ماتھے پر
دو گھڑی جھک کے غم سے کام لیا
جب ذرا چشم کی اشارت سے
اس گل اندام نے سلام لیا
نظیر اکبر آبادی
No comments:
Post a Comment