Friday, 27 November 2015

لو تم بھی گئے ہم نے تو سمجھا تھا کہ تم نے

میجر اسحاق کی یاد میں

لو تم بھی گئے ہم نے تو سمجھا تھا کہ تم نے
باندھا تھا کوئی یاروں سے پیمانِ وفا اور
یہ عہد کہ تا عمرِ رواں ساتھ رہو گے
رستے میں بچھڑ جائیں گے جب اہلِ صفا اور
ہم سمجھے تھے صیّاد کا ترکش ہُوا خالی
باقی تھا مگر اس میں ابھی تیرِ قضا اور
ہر خار رہِ دشتِ وطن کا ہے سوالی
کب دیکھیے آتا ہے کوئی آبلہ پا اور
آنے میں تأمّل تھا اگر روزِ جزا کو
اچھا تھا ٹھہر جاتے اگر تم بھی ذرا اور

فیض احمد فیض

No comments:

Post a Comment