اس جنبشِ ابرو کا گِلہ ہو نہیں سکتا
دل گوشت ہے، ناخن سے جدا ہو نہیں سکتا
کچھ تُو ہی اثر کر، تِرے قربان خموشی
نالوں سے تو کچھ کام مِرا ہو نہیں سکتا
گر غیر بھی ہو وقفِ ستم تو ہے مسلّم
کھولے گرۂ دل کو تِرا ناخنِ شمشیر
یہ کام اجل سے بھی روا ہو نہیں سکتا
سبقت ہو تجھے راہ میں اس کوچے کی مجھ پر
زنہار یہ اے راہنما! ہو نہیں سکتا
'میں نے جو کہا 'ہمدمِ اغیار نہ ہو جے
'تو چیں بہ جبیں ہو کے کہا، 'ہو نہیں سکتا
یہ رازِ محبت ہے نہ افسانۂ بلبل
محرم ہو مِری بادِ صبا، ہو نہیں سکتا
کب طالعِ خفتہ نے دیا خواب میں آنے
وعدہ بھی کیا وہ کہ وفا ہو نہیں سکتا
وہ مجھ سے خفا ہے تو اسے یہ بھی ہے زیبا
پر شیفتہؔ میں اس سے خفا ہو نہیں سکتا
مصطفیٰ خان شیفتہ
No comments:
Post a Comment