Friday, 27 November 2015

کیا نگاہوں نے کوئی خواب سجایا نہ کبھی

کیا نگاہوں نے کوئی خواب سجایا نہ کبھی
کیا کسی کو بھی قریب اپنے بلایا نہ کبھی
آتے رہنے کے لیے شکریہ اے یاد کے دوست
میں ہی مجرم ہوں، تِری یاد میں آیا نہ کبھی
اس کی البم میں تو تصویر مِری ہے موجود
اس نے تصویر کو سینے سے لگایا نہ کبھی
میں تجھے کیسے بتا دیتا دلِ ناز کا حال
حالِ دل میں نے تو خود کو بھی بتایا نہ کبھی
دل چُرا کر مِرا کہتا ہے مجھے چور یہ اب
خود ہی چوری ہوا، اس نے تو چُرایا نہ کبھی
قہقہے اوروں کی خوشیوں میں رہے ہیں شامل
میرے حالات نے خود مجھ کو ہنسایا نہ کبھی
میں نے اوروں سے سنا ہے کہ نسیم آتی ہے
کیوں مجھے وقتِ سحر اس نے جگایا نہ کبھی
تیری جاویدؔ یہ عادت ہے خدا کو بھی پسند
تُو نے نظروں سے کسی کو بھی گرایا نہ کبھی

جاوید جمیل

No comments:

Post a Comment