Friday 27 November 2015

مدت سے ڈھونڈتی ہے کسی کی نظر مجھے

مدت سے ڈھونڈتی ہے کسی کی نظر مجھے
میں کس مقام پر ہوں، نہیں ہے خبر مجھے
آوارگی اڑائے پھِری مثلِ بوئے گل 
 کوئی پکارتا ہی رہا عمر بھر مجھے
یوں جا رہا ہوں جیسے نہ آؤں گا پھر کبھی
مڑ مڑ کے دیکھتی ہے تِری رہگزر مجھے
کیا جانے کس خیال سے چہرہ دمک اٹھا
میں چارہ گر کو دیکھتا ہوں، چارہ گر مجھے
عہدِ خزاں، بہار کی رُت، نام ہیں فقط
کیا بات کہہ گئی ہے نسیمِ سحر مجھے
منزل پہ آ کے شادؔ عجب حادثہ ہوا
میں ہم سفر کو بھول گیا، ہم سفر مجھے

شاد امرتسری

No comments:

Post a Comment