Monday 30 November 2015

کہاں سے ٹوٹی ہوئی ہوں میں اور ابھی تلک ہوں کہاں سلامت

کہاں سے ٹوٹی ہوئی ہوں میں اور ابھی تلک ہوں کہاں سلامت
فریبِ ہستی میں رہنے والے رہے تِرا یہ جہاں سلامت
نہ کوئی بستی یہاں سلامت، نہ اس میں مکاں سلامت
یہی بہت ہے ہر ایک چہرے پہ بس ہے اشکِ رواں سلامت
پگھل چکا ہے وجود سارا، سلگ رہی ہے ہماری ہستی
چراغِ جاں کب کا بجھ چکا ہے، مگر ابھی تک دھواں سلامت
بس ایک لمحہ تھا روشنی کا ، گرفت سے جو نکل گیا ہے
کوئی نشانی کہاں بچی ہے، مگر ہے دل پر نشاں سلامت
کسی سے شکوہ بھی کیا کریں اب، چمن پہ حق ہی نہیں تھا اپنا
بکھرنے والا یہ کہہ رہا ہے، رہے تِرا آشیاں سلامت
جنوں کے رستوں پہ میرے ہمدم ، شمار زخموں کا کیوں کروں اب
تمہارا ہرایک وار مجھ پر رہے گا اے مہرباں سلامت
یہ بے سبب سی اداسیاں ہیں، یہ روگ سہتی سی داسیاں ہیں
نئے زمانوں میں رہنے والو، رہے تمہارا زماں سلامت
اجڑ گیا ہے بکھر گیا ہے، یہ عشق آخر کو مٹ گیا ہے
کمین گاہوں میں رہنے والو، رہے تمہاری کماں سلامت
وہ حسن بانہوں میں سو گیا ہے، تو عشق راہوں میں کھو گیا ہے
یقیں کی منزل تو کھو چکی ہوں، مگر ابھی ہے گماں سلامت

نجمہ شاہین کھوسہ

No comments:

Post a Comment