ہم سے تم کو ضد سی پڑی ہے خواہ نخواہ رلاتے ہو
آنکھ اٹھا کر جب دیکھے ہیں اوروں میں ہنستے جاتے ہو
جب ملنے کو سوال کروں ہوں زلف و رخ دکھلاتے ہو
برسوں مجھ کو یوں ہی گزرے صبح و شام بتاتے ہو
بکھری رہی ہیں منہ پر زلفیں آنکھ نہیں کھل سکتی ہے
سرو تہ و بالا ہوتا ہے، درہم برہم شاخِ گُل
ناز سے قد کش ہو کے چمن میں ایک بلا تم لاتے ہو
صبح سے یاں پھر جان و دل پر روز قیامت رہتی ہے
رات کبھو آ رہتے ہو تو یہ دن ہم کو دکھلاتے ہو
جن نے تم کو نہ دیکھا ہووے اس سے آنکھیں مارو تم
ایک نگاہ مفتن کر تم سو سو فتنے اٹھاتے ہو
چشم تو ہے اک دید کی جا پر کب تکلیف کے لائق ہے
دل جو ہے دلچسپ مکاں تم اس میں کب کب آتے ہو
راحت پہنچی ٹک تم سے تو رنج اٹھایا برسوں تک
سر سہلاتے ہو جو کبھو تو بھیجا بھی کھا جاتے ہو
ہو کے گدائے کوئے محبت روز صدا یہ نکالی ہے
اب تو میرؔ جی راتوں کو تم ہر در پر چلاتے ہو
مير تقی مير
No comments:
Post a Comment