Friday, 27 November 2015

بلائیں زلف جاناں کی اگر لیتے تو ہم لیتے

بلائیں زلف جاناں کی اگر لیتے تو ہم لیتے
بلا یہ کون لیتا جان پر، لیتے تو ہم لیتے
اسے کیا کام تھا وہ بے خبر کیوں پوچھتا پھِرتا
دلِ گم گشتہ کی اپنے خبر لیتے تو ہم لیتے
نہ لیتا مول سودا کوئی بازارِ محبت کا
مگر کچھ جان اپنی بیچ کر لیتے تو ہم لیتے
نہ ہوتا کوئی منت کش تیری شمشیر کا ہرگز
یہ احساں سر پہ اے بے داد گر لیتے تو ہم لیتے
 لگایا جام مے ہونٹوں سے اس نے، ہم کو رشک آیا
کہ بوسہ اس کے لب کا اے ظفرؔ لیتے تو ہم لیتے

 بہادر شاہ ظفر

No comments:

Post a Comment