بلائیں زلف جاناں کی اگر لیتے تو ہم لیتے
بلا یہ کون لیتا جان پر، لیتے تو ہم لیتے
اسے کیا کام تھا وہ بے خبر کیوں پوچھتا پھِرتا
دلِ گم گشتہ کی اپنے خبر لیتے تو ہم لیتے
نہ لیتا مول سودا کوئی بازارِ محبت کا
نہ ہوتا کوئی منت کش تیری شمشیر کا ہرگز
یہ احساں سر پہ اے بے داد گر لیتے تو ہم لیتے
لگایا جام مے ہونٹوں سے اس نے، ہم کو رشک آیا
کہ بوسہ اس کے لب کا اے ظفرؔ لیتے تو ہم لیتے
بہادر شاہ ظفر
No comments:
Post a Comment