کہاں کہاں نہ ہوا لے گئی اڑا کے مجھے
ستم یہ کس نے کیا ہے دھواں بنا کے مجھے
بہت اداس ہوا آئینہ دکھا کے مجھے
زمانہ دیکھ چکا ہے ہدف بنا کے مجھے
ابھی تھمی بھی نہ تھیں سسکیاں کہ رات گئے
زمانہ شوق سے مجھ کو جلائے تا بہ ابد
اگر نصیب ہو کچھ روشنی جلا کے مجھے
میں شرمسار بہت ہوں حیات سے اپنی
کہ ہارتی ہی رہی داؤ پر لگا کے مجھے
میں آدمی ہوں، مگر مثلِ شہرِ دِلّی ہوں
کہ روند دیتی ہے دنیا بسا بسا کے مجھے
رواں دواں ہے جو تیزی سے منزلوں کی طرف
مزہ ملا ہے اسے راہ میں گرا کے مجھے
مِرے سخن کے پرستار کیسے ہیں یہ فراغؔ
اٹھا رہے ہیں جو محفل سے خود بلا کے مجھے
فراغ روہوی
No comments:
Post a Comment