Sunday 29 November 2015

کہاں کہاں نہ ہوا لے گئی اڑا کے مجھے

کہاں کہاں نہ ہوا لے گئی اڑا کے مجھے
ستم یہ کس نے کیا ہے دھواں بنا کے مجھے
بہت اداس ہوا آئینہ دکھا کے مجھے
زمانہ دیکھ چکا ہے ہدف بنا کے مجھے
ابھی تھمی بھی نہ تھیں سسکیاں کہ رات گئے
کسی کی چیخ نے پھر رکھ دیا ہلا کے مجھے
زمانہ شوق سے مجھ کو جلائے تا بہ ابد
اگر نصیب ہو کچھ روشنی جلا کے مجھے
میں شرمسار بہت ہوں حیات سے اپنی
کہ ہارتی ہی رہی داؤ پر لگا کے مجھے
میں آدمی ہوں، مگر مثلِ شہرِ دِلّی ہوں
کہ روند دیتی ہے دنیا بسا بسا کے مجھے
رواں دواں ہے جو تیزی سے منزلوں کی طرف
مزہ ملا ہے اسے راہ میں گرا کے مجھے
مِرے سخن کے پرستار کیسے ہیں یہ فراغؔ
اٹھا رہے ہیں جو محفل سے خود بلا کے مجھے

فراغ روہوی

No comments:

Post a Comment