Sunday 29 November 2015

آنکھوں کے سامنے کوئی منظر نیا نہ تھا

آنکھوں کے سامنے کوئی منظر نیا نہ تھا
بس وہ ذرا سا فاصلہ باقی رہا نہ تھا
اب اس سفر کا سلسلہ شاید ہی ختم ہو
سب اپنی اپنی راہ لیں، ہم نے کہا نہ تھا
دروازے آج بند سمجھیے سلوک کے
یہ چلنے والا دور تلک سلسلہ نہ تھا
اونچی اڑان کے لیے پر تولتے تھے ہم
اونچائیوں پہ سانس گھٹے گی پتہ نہ تھا
کوشش ہزار کرتی رہیں تیز آندھیاں
لیکن وہ ایک پتہ ابھی تک ہلا نہ تھا
سب ہی شکار گاہ میں تھے خیمہ زن مگر
کوئی شکار کرنے کو اب تک اٹھا نہ تھا
اچھا ہوا کہ گوشہ نشینی کی اختیار
آشفتہؔ اور اس کے سوا راستہ نہ تھا

​آشفتہ چنگیزی

No comments:

Post a Comment