Monday 23 November 2015

کشکول ہے تو لا ادھر آ کر لگا صدا

کشکول ہے تو لا ادھر آ کر لگا صدا
میں پیاس بانٹتا ہوں ضرورت نہیں تو جا
میں شہر شہر خوابوں کی گٹھڑی لیے پھِرا
بے دام تھا یہ مال پہ گاہک کوئی نہ تھا
پتھر پگھل کے ریت کے مانند نرم ہے
درد اتنی دیر ساتھ رہا، راس آ گیا
سینوں میں اضطراب ہے، گریہ ہوا میں ہے
کیا وقت ہے کہ شور مچا ہے، دعا، دعا
ہمت ہے تو بلند کر آواز کا علم
چپ بیٹھنے سے حل نہیں ہونے کا مسئلہ
واں شب گزیدہ سینوں کو سورج عطا ہوئے
تم بھی وہاں گئے تھے ضیاؔ! تم کو کیا ملا

ضیا جالندھری

No comments:

Post a Comment