Monday 23 November 2015

تمہاری چاہت کی چاندنی سے ہر اک شب غم سنور گئی ہے

تمہاری چاہت کی چاندنی سے ہر اِک شبِ غم سنور گئی ہے
سنہری پوروں سے خواب ریزے سمیٹتی ہر سحر گئی ہے 
مہکتے جھونکے کے حرفِ تسکِیں میں جانی پہچانی لرزِشیں تھیں 
تمہاری سانسوں کی آنچ، کتنی قریب آ کر گزر گئی ہے
اب اس کا چارہ ہی کیا کہ اپنی طلب ہی لا انتہا تھی، ورنہ
وہ آنکھ جب بھی اٹھی ہے دامانِ درد پھولوں سے بھر گئی ہے
نہ تھا، نہ ہو گا کبھی میسر، سکون جو تیرے قُرب میں ہے
یہ وقت کی جھیل جس میں ہر لہر جیسے تھک کر ٹھہر گئی ہے 
یہ برف زارِ خیال جس میں نہ صوتِ گل ہے، نہ عکسِ نغمہ
تِری توجہ سے، آتشِ شوق اسی کو گلزار کر گئی ہے
یہ کون دیوانے ریگِ صحرا کو موجۂ خوں سے سِینچتے ہیں 
کوئی کہو اس جنوں کی، اس نو بہار تک بھی خبر گئی ہے 
ضیاؔ دِلوں میں غبار کیا کیا تھے، روئے جی بھر کے جب ملے وہ 
وہ ابر برسا ہے اب کے ساون، کہ پتی پتی نکھر گئی ہے

ضیا جالندھری

No comments:

Post a Comment