نذرِ شاہ حسینؒ
روپ بدل کر، جانے کس پل، کیا بن جائے مائے نی
دِل کا آخر آ پہنچا ہے، درد کہاں تک جائے نی
اس کے بعد تو میں تھا جس نے جنگل بیلے چھانے تھے
میرے بعد اب کون ہے ایسا، جو رانجھا کہلائے نی
میں بھوکے کا بھوکا آخر، دن نکلے یا شام ڈھلے
کیا دیکھا اور کیا نہ دیکھا، یاد نہیں، کچھ یاد نہیں
نینوں کے کہنے میں آ کر، ہم نے نِیر بہائے نی
دنیا دل میں، دل دنیا میں، کون ان میں تفریق کرے
وقت کا پہیا گھوم رہا ہے، چرخہ کون گھمائے نی
اِک جوگی کے روگی بن کر، رستے میں آ بیٹھے ہیں
چار دنوں کا وقت ہے سارا، جانے وہ کب آئے نی
ایسے روٹی سالن سے تو چولھا ٹھنڈا اچھا ہے
اس بالن کا کیا کرنا، جو گھر کو آگ لگائے نی
دل تختی پر، عشق زباں میں، پلکوں سے اور اشکوں سے
کہے حسین فقیر سئیں دا، عادلؔ لکھتا جائے نی
ذوالفقار عادل
No comments:
Post a Comment