گور میں یادِ قدِ یار نے سونے نہ دیا
فتنۂ حشر کو رفتار نے سونے نہ دیا
واہ اے طالعِ خفتہ! کہ شبِ عیش میں بھی
وہم بے خوابئ اغیار نے سونے نہ دیا
وا رہیں صورتِ آغوش، سحر تک آنکھیں
یاس سے آنکھ بھی جھپکی تو توقع سے کھلی
صبح تک وعدۂ دیدار نے سونے نہ دیا
طالعِ خفتہ کی تعریف کہاں تک کیجے
پاؤں کو بھی خلشِ خار نے سونے نہ دیا
دردِ دل سے جو کہا نیند نہ آئی، تو کہا
مجھ کو کب نرگسِ بیمار نے سونے نہ دیا
شبِ ہجراں نے کہا قصۂ گیسوئے دراز
شیفتہؔ تو بھی دلِ زار نے سونے نہ دیا
مصطفیٰ خان شیفتہ
No comments:
Post a Comment