روزِ غم میں کیا قیامت ہے شبِ عشرت کی یاد
اشکِ خوں سے آ گئیں رنگینیاں صحبت کی یاد
میری حالت دیکھ لو تغیر کتنی ہو چکی
وصل کے دن دم بہ دم کیوں شیشۂ ساعت کی یاد
میں ہوں بیکس اور بیکس پر ترحم ہے ضرور
طاقتِ جنبش نہیں اس حال پہ قصدِ عدم
مر گئے پر بھی رہے گی اپنی اس ہمت کی یاد
غالباً ایامِ حرماں، بے خودی میں کٹ گئے
آتی ہے پھر آرزو بھولی ہوئ مدت کی یاد
دل لگانے کا ارادہ پھر ہے شاید شیفتہؔ؟
ایسی حسرت سے جو ہے گزری ہوئ الفت کی یاد
مصطفیٰ خان شیفتہ
No comments:
Post a Comment