Friday 27 November 2015

مجھے یاد کرنے والو کبھی میرے پاس آؤ

مجھے یاد کرنے والو کبھی میرے پاس آؤ
گئے موسموں کی باتیں مجھے آن کر سناؤ
نہ خیالِ رنگ و بو ہے نہ کیس کی جستجو ہے
میرے ہاتھ میں سبو ہے، میرے ذہن میں الاؤ
کسی رات کی خموشی سے بھری اداس رُت میں
کوئی دل گزار نغمہ، کوئی دُکھ کا گیت گاؤ
کسی زلف کی اندھیروں سے اٹی ہوئی گُپھا میں
میں بھٹک رہا ہوں تنہا، مجھے راستہ دکھاؤ
کبھی آؤ مل کے بیٹھیں کسی چاندنی کے بن میں
کوئی بات میں سناؤں، کوئی بات تم سناؤ
میں بڑے دنوں سے چُپکا کسی دھیان میں پڑا ہوں
مِرے دھیان کو صدا دو، مجھے چھیڑتی ہواؤ

شاد امرتسری

No comments:

Post a Comment