مجھے یاد کرنے والو کبھی میرے پاس آؤ
گئے موسموں کی باتیں مجھے آن کر سناؤ
نہ خیالِ رنگ و بو ہے نہ کیس کی جستجو ہے
میرے ہاتھ میں سبو ہے، میرے ذہن میں الاؤ
کسی رات کی خموشی سے بھری اداس رُت میں
کسی زلف کی اندھیروں سے اٹی ہوئی گُپھا میں
میں بھٹک رہا ہوں تنہا، مجھے راستہ دکھاؤ
کبھی آؤ مل کے بیٹھیں کسی چاندنی کے بن میں
کوئی بات میں سناؤں، کوئی بات تم سناؤ
میں بڑے دنوں سے چُپکا کسی دھیان میں پڑا ہوں
مِرے دھیان کو صدا دو، مجھے چھیڑتی ہواؤ
شاد امرتسری
No comments:
Post a Comment