اب عالیؔ جی اہلِ سخن کی صحبت سے گھبراتے ہیں
جب کہیں بیٹھنا ہی پڑ جائے گیت پرانے گاتے ہیں
گیت پرانے سوہنے لیکن کب تک گائے جاؤ گے
ایک سے بول اور ایک سی لے سے کن رس بھی تھک جاتے ہیں
یہ سب شکوے سر آنکھوں پر، لیکن یارو! سوچو تو
کچھ تو ایسے جرم تھے جن کا رنج کچھ ایسا گہرا ہے
لوگ جتائیں یا نہ جتائیں، یہ خود سے شرماتے ہیں
کچھ ناکام ارادوں نے بھی ہمت توڑ کے رکھ دی ہے
کچھ اپنی کم مائیگیوں کے خوف سے بھی گھبراتے ہیں
نوعمری میں عشق کی گلیاں اندھے پن سے مل نہ سکیں
اور اب جاتی عمر کے سائے کوسوں دور بھگاتے ہیں
بے تقصیر وہ جیون ساتھی ایسا ساتھ نبھاتی ہے
اس کو کوئی بھی دکھ دینے کے دھیان سے ہی تھراتے ہیں
اب جو بھولے بھٹکے کوئی دعوتِ شوق آ جاتی ہے
کیا کیا وعدے، کیا کیا وہم اور کیا کیا دھیان ستاتے ہیں
ایسی نیند بھی لے نہیں سکتے جس سے اٹھنا مشکل ہو
بھولے بھالے چاہنے والے بچے روز جگاتے ہیں
جب سے چین میں گھوم آئے ہیں بے چینی سی رہتی ہے
کیا کچھ پایا، کیا نہیں پایا، کچھ بھی کہہ نہیں پاتے ہیں
جس دنیا کے خواب کتابوں اور قصوں میں دیکھے تھے
وہ نہ ملی اور اب یہ سب کو وہی خواب دکھاتے ہیں
جمیل الدین عالی
No comments:
Post a Comment