میاں دل! تجھے لے چلے حسن والے
کہوں اور کیا، جا! خدا کے حوالے
ادھر آ ذرا تجھ سے مِل کر میں رو لوں
تُو مجھ سے ذرا مِل کے آنسو بہا لے
چلا اب تُو ساتھ اس کے تو بے بسی سے
خبردار ان کے سوا زلف و رخ کے
کہیں مت نکلنا اندھیرے اجالے
تِرے اور بھی ہیں طلب گار کتنے
مبادا کوئی تجھ کو واں سے اڑا لے
کہیں قہر ایسا نہ کیجو کہ مجھ کو
بلانے پڑیں فال تعویذ والے
کسی کا تو کچھ بھی نہ جاوے گا لیکن
پڑیں گے مجھے اپنے جینے کے لالے
اگر دسترس ہو تو کیجے منادی
کہ پھر کوئی سینے میں دل کو نہ پالے
نظیرؔ! آہ دل کی جدائی بری ہو
بہیں کیوں نہ آنکھوں سے آنسو کے نالے
نظیر اکبر آبادی
No comments:
Post a Comment