Friday 27 November 2015

جھمک دکھاتے ہی اس دل ربا نے لوٹ لیا

جھمک دکھاتے ہی اس دلربا نے لوٹ لیا
ہمیں تو پہلے ہی اس کی ادا نے لوٹ لیا
نگہ کے ٹھگ کی لگاوٹ نے فن سے کر غافل
ہنسی نے ڈال دی پھانسی، دعا نے لوٹ لیا
وفا جفا نے یہ کی جنگ زرگری ہم سے
وفا نے باتوں میں لگایا، جفا نے لوٹ لیا
لٹے ہم اس کی گلی میں تو یوں پکارے لوگ
کہ اک فقیر کو اک بادشا نے لوٹ لیا
ابھی کہیں تو کسی کو نہ اعتبار آوے
کہ ہم کو راہ میں اک رہنما نے لوٹ لیا
ہزاروں قافلے جس شوخ نے کیے غارت
نظیرؔ کو بھی اسی بے وفا نے لوٹ لیا
دل چھپا بیٹھا تو اس زلفِ مسلسل سے نظیرؔ
اے اسیرِ دامِ نافہمی، یہ تُو نے کیا کیا

نظیر اکبر آبادی

No comments:

Post a Comment