جھمک دکھاتے ہی اس دلربا نے لوٹ لیا
ہمیں تو پہلے ہی اس کی ادا نے لوٹ لیا
نگہ کے ٹھگ کی لگاوٹ نے فن سے کر غافل
ہنسی نے ڈال دی پھانسی، دعا نے لوٹ لیا
وفا جفا نے یہ کی جنگ زرگری ہم سے
وفا نے باتوں میں لگایا، جفا نے لوٹ لیا
لٹے ہم اس کی گلی میں تو یوں پکارے لوگ
کہ اک فقیر کو اک بادشا نے لوٹ لیا
ابھی کہیں تو کسی کو نہ اعتبار آوے
کہ ہم کو راہ میں اک رہنما نے لوٹ لیا
ہزاروں قافلے جس شوخ نے کیے غارت
نظیرؔ کو بھی اسی بے وفا نے لوٹ لیا
دل چھپا بیٹھا تو اس زلفِ مسلسل سے نظیرؔ
اے اسیرِ دامِ نافہمی، یہ تُو نے کیا کیا
ہمیں تو پہلے ہی اس کی ادا نے لوٹ لیا
نگہ کے ٹھگ کی لگاوٹ نے فن سے کر غافل
ہنسی نے ڈال دی پھانسی، دعا نے لوٹ لیا
وفا جفا نے یہ کی جنگ زرگری ہم سے
وفا نے باتوں میں لگایا، جفا نے لوٹ لیا
لٹے ہم اس کی گلی میں تو یوں پکارے لوگ
کہ اک فقیر کو اک بادشا نے لوٹ لیا
ابھی کہیں تو کسی کو نہ اعتبار آوے
کہ ہم کو راہ میں اک رہنما نے لوٹ لیا
ہزاروں قافلے جس شوخ نے کیے غارت
نظیرؔ کو بھی اسی بے وفا نے لوٹ لیا
دل چھپا بیٹھا تو اس زلفِ مسلسل سے نظیرؔ
اے اسیرِ دامِ نافہمی، یہ تُو نے کیا کیا
نظیر اکبر آبادی
No comments:
Post a Comment