Wednesday, 25 November 2015

عمر کا بھروسا کیا پل کا ساتھ ہو جائے

عمر کا بھروسا کیا، پَل کا ساتھ ہو جائے
ایک بار اکیلے میں، اس سے بات ہو جائے
دل کی گُنگ سرشاری اس کو جیت لے لیکن
عرضِ حال کرنے میں احتیاط ہو جائے
ایسا کیوں کہ جانے سے صرف ایک انساں کے 
ساری زندگانی ہی بے ثبات ہو جائے
یاد کرتا جائے دل، اور کِھلتا جائے دل
اوس کی طرح کوئی پات پات ہو جائے
سب چراغ گُل کر کے اس کا ہاتھ تھاما تھا
کیا قصور اس کا جو بَن میں رات ہو جائے
ایک بار کھیلے تو، وہ مِری طرح اور پھر
جیت لے وہ ہر بازی مجھ کو مات ہو جائے
رات ہو پڑاؤ کی پھِر بھی جاگیے ورنہ 
آپ سوتے رہ جائیں، اور ہات ہو جائے

پروین شاکر

No comments:

Post a Comment