Friday, 27 November 2015

حیا سے ٹوٹ کے آہ کانپتی برسات آئی

حیا سے ٹوٹ کے آہ کانپتی برسات آئی
آج اقرارِ جرم کر ہی لیں وہ رات آئی
دھنک سے رنگ لیے بجلیوں سی آنکھوں میں
کیسی معصوم امنگوں کی یہ بارات آئی
تمام دوڑے سائے وہیں پہ ٹھہر گئے
جھجک جھجک کے لرزتی جہاں یہ بات آئی
گھٹا سے ہونٹوں نے جھک کر زمیں کو چوم لیا
ہائے اس ملگجے آنچل میں کائنات آئی
ٹھنڈا چھینٹا پڑے جیسے دہکتے لوہے پر
نور کی بوند لبوں سے جو میرے ہاتھ آئی

ماہ جبین ناز
مینا کماری ناز

No comments:

Post a Comment