Sunday, 29 November 2015

نکلوں جو یہاں سے تو بھلا جاؤں کہاں اور

نکلوں جو یہاں سے تو بھلا جاؤں کہاں اور
اس شہر کے لوگوں کا ہے دل اور زباں اور
ہے میرے سوا بھی کوئی بیزارِ جہاں اور
آئی ہے کہیں اور سے آوازِ فغاں اور
جز خلوت و لب بستگی و ضبط و تحیر
کیا بات کریں اپنے مکینوں سے مکاں اور
ہم اس کے ہوئے ہیں تو اسی در کے رہیں گے
ہوتا ہے تو ہونے دو دل و جاں کا زیاں اور
ہنس کر نہ کرو بات مہذب نہیں ماحول
بے رحم زمانے کو گزرتا ہے گماں اور
خوش کن تو سہی ترکِ محبت کا تصور
یہ آگ جو بجھتی ہے تو دیتی ہے دھواں اور
حق بات پہ دانشؔ وہ بگڑتے ہیں تو بگڑیں
اک وہ بھی سہی سینکڑوں دشمن ہیں جہاں اور

احسان دانش

No comments:

Post a Comment