نکلوں جو یہاں سے تو بھلا جاؤں کہاں اور
اس شہر کے لوگوں کا ہے دل اور زباں اور
ہے میرے سوا بھی کوئی بیزارِ جہاں اور
آئی ہے کہیں اور سے آوازِ فغاں اور
جز خلوت و لب بستگی و ضبط و تحیر
ہم اس کے ہوئے ہیں تو اسی در کے رہیں گے
ہوتا ہے تو ہونے دو دل و جاں کا زیاں اور
ہنس کر نہ کرو بات مہذب نہیں ماحول
بے رحم زمانے کو گزرتا ہے گماں اور
خوش کن تو سہی ترکِ محبت کا تصور
یہ آگ جو بجھتی ہے تو دیتی ہے دھواں اور
حق بات پہ دانشؔ وہ بگڑتے ہیں تو بگڑیں
اک وہ بھی سہی سینکڑوں دشمن ہیں جہاں اور
احسان دانش
No comments:
Post a Comment