Sunday, 29 November 2015

دیکھا جو آئینہ تو مجھے سوچنا پڑا

دیکھا جو آئینہ تو مجھے سوچنا پڑا
خود سے نہ مل سکا تو مجھے سوچنا پڑا
اُس کا جو خط مِلا تو مجھے سوچنا پڑا
اپنا سا وہ لگا تو مجھے سوچنا پڑا
مجھ کو تھا یہ گماں کہ مجھی میں ہے اک انا 
دیکھی تِری انا تو مجھے سوچنا پڑا 
دنیا سمجھ رہی تھی کہ ناراض مجھ سے ہے
لیکن وہ جب ملِا تو مجھے سوچنا پڑا
سر کو چھپاؤں اپنے کہ پیروں کو ڈھانپ لوں
چھوٹی سی تھی رِدا تو مجھے سوچنا پڑا
اک دن وہ میرے عیب گِنانے لگا فراغؔ
جب خود ہی تھک گیا تو مجھے سوچنا پڑا

فراغ روہوی

No comments:

Post a Comment