Monday 23 November 2015

مبتلا بس کہ ہوں میں اس بت ہرجائی کا

مبتلا بس کہ ہوں میں اس بتِ ہرجائی کا
جابجا کیوں نہ ہوں شہرہ مِری رسوائی کا
دید سو طرح کے عالم کہ ہمیں تھی جس جا
عالم آتا ہے نظر اب وہیں تنہائی کا
تک کے ہر ایک کی صورت کو وہ رو دیتا ہے
ان دنوں میں ہے یہ نقشا تِرے سودائی کا
دل پر داغ کا یہ دشتِ محبت میں ہے رنگ
پھول آوارہ ہوں جوں لالۂ صحرائی کا
جوشِ وحشت کو مِرے سن کے تماشا ہے اگر
دیکھنے آئے تماشا وہ تماشائی کا
دور دور اتنا نہ پھر اس سے کہ پہنچا ہے میاں
حال مرنے کے قریب اب تِرے شیدائی کا
کاش یوسفؑ کی میں اس کو نہ دکھاتا تصویر
اب ہوا اور بھی دعویٰ اسے یکتائی کا
جرأتؔ اس میں غزل اک اور بھی پُر درد سی کہہ
شوق ہے تجھ کو اگر معرکہ آرائی کا

قلندر بخش جرأت

No comments:

Post a Comment