Monday 23 November 2015

اب گزارا نہیں اس شوخ کے در پر اپنا

اب گزارا نہیں اس شوخ کے در پر اپنا
جس کے گھر کو یہ سمجھتے تھے کہ ہے گھر اپنا
کوچۂ دہر میں، غافل نہ ہو پابندِ نشست
رہگزر میں کوئی کرتا نہیں بستر اپنا
غم زدے اٹھ گئے دنیا ہی سے ہم آخر آہ
زانوئے غم سے ولیکن نہ اٹھا سر اپنا
گر مَلوں میں کفِ افسوس تو ہنستا ہے وہ شوخ
ہاتھ میں ہاتھ کسی شخص کے دے کر اپنا
ذبح کرنا تھا تو پھر کیوں نہ مِری گردن پر
زور سے پھیر دیا آپ نے خنجر اپنا
نیم بسمل ہی چلے چھوڑ کے تم کیوں پیارے
زور یہ تم نے دکھایا ہمیں جوہر اپنا
کیا کریں دل جو کہے میں ہو تو تم سے جرأتؔ
نہ کہیں جائیں کہ ہے سب میں بھلا گھر اپنا

قلندر بخش جرأت

No comments:

Post a Comment