Monday 23 November 2015

سر تن سے میرے تو نے ستمگار اتارا

سر تن سے میرے تُو نے ستمگار اتارا
آخر کو محبت میں مجھے پار اتارا
رک کر مِری فریاد سے ہمسائے یہ بولے
کس شخص نے یاں لا کے یہ بیمار اتارا
سر کٹنے کاقاتل! میں کروں شکر کہاں تک
تُو نے تو یہ تن پر سے بڑا بار اتارا
ہم گھر گئے اس کے تو رہا بام پہ وہ شوخ
نیچے اسے گردوں سے نہ زنہار اتارا
اس شوخ نے کل باتوں ہی باتوں میں فلک پر
سو بار چڑھایا مجھے، سو بار اتارا
دیکھا جسے تُو نے خمِ ابرو کو چڑھا کر
آخر پھر اسے قبر ہی میں یار! اتارا
شب چاند سے مکھڑے پہ جو زلف اس کی بکھر گئی
جو سامنے آیا، بس اسے مار اتارا
ڈوبا ہی تھا میں بحرِ محبت میں، پہ جرأتؔ
اس دیدۂ گریاں نے مجھے پار اتارا

قلندر بخش جرأت

No comments:

Post a Comment