Monday 23 November 2015

آرام نہ ہو دل کو تو اے یار کریں کیا

آرام نہ ہو دل کو تو اے یار! کریں کیا
پھِر پھِر کے یہیں آتے ہیں ناچار کریں کیا
گھبرا کے مرض سے مِرے یوں بولے طبیب آہ
چنگا نہیں ہوتا ہے یہ بیمار کریں کیا
اک روز بھی در پر جو نظر آئے نہ وہ یار
تو رہ کے بھلا ہم پسِ دیوار کریں کیا
کیونکر مِرے دشمن نہ ہوں سب اس کے کہے سے
یہ یار کی مرضی ہو تو اغیار کریں کیا
آگے ہی سمجھ بوجھ کے ٹالے ہے وہ عیار
پھر اس سے بھلا حالِ دل اظہار کریں کیا
صیاد! نہ منع کہ گلشن کی ہوس میں
تڑپھیں نہ تو یہ مرغِ گرفتار کریں کیا
احوال کہے بِن نہیں بنتی ہے کسی طور
اور کہیے تو ہوتا ہے وہ بیزار کریں کیا
دیکھ اس دیلِ ویراں کو کہا لشکرِ غم نے
آگے ہیں یہ مسمار ہے، مسمار کریں کیا
"میں نے جو کہا "قول مجھے دے کے سدھاروں
"تو ہنس کے لگا کہنے وہ "اقرار کریں کیا 
آتا ہے نہ تُو یاں، نہ تِرے بِن ہے ہمیں چین
جینا بھی ہوا ہے ہمیں دشوار کریں کیا
ق
جرأتؔ تِرے احوال سے ہیں جان بلب ہم
کچھ روز بہی کا نہیں آثار کریں کیا
گر ایک مرض ہو تو بھلا کیجیے کچھ فکر
بے ڈھب تجھے آزار ہیں دو چار کریں کیا

قلندر بخش جرأت

No comments:

Post a Comment