Monday 23 November 2015

خورشید گہن سے چھوٹ چکا بدلی سے رہائی باقی ہے

خورشید گہن سے چھوٹ چکا بدلی سے رہائی باقی ہے
طوفان سے تو کشتی کھے لائے، ساحل پہ لڑائی باقی ہے
پیروں کی کٹی بیڑی جس دم، قیدی سمجھا، آزاد ہوا
یہ بھول گیا گردن میں ابھی زنجیرِ طلائی باقی ہے
رہرو دونوں خطروں سے اگر بچ نکلا، منزل پائے گا
اب راہزنی تو ختم ہوئی، ہاں راہنمائی باقی ہے
با جشنِ طرب قیدی چھٹ کر گلشن کے دوراہے پر پہنچے
با دیدۂ نم اس منزل پر یاروں سے جدائی باقی ہے
اک جنگ پہ آمادہ دنیا یہ راز کب تک سمجھے گی
طاقت کی دہائی فانی ہے، انساں کی اکائی باقی ہے
گردوں کے ستارے بجھنے دو، دنیا سے کہو ماتم نہ کرے
ذروں سے شعائیں پھوٹیں گی، مٹی کی خدائی باقی ہے

آنند نرائن ملا

No comments:

Post a Comment