خورشید گہن سے چھوٹ چکا بدلی سے رہائی باقی ہے
طوفان سے تو کشتی کھے لائے، ساحل پہ لڑائی باقی ہے
پیروں کی کٹی بیڑی جس دم، قیدی سمجھا، آزاد ہوا
یہ بھول گیا گردن میں ابھی زنجیرِ طلائی باقی ہے
رہرو دونوں خطروں سے اگر بچ نکلا، منزل پائے گا
با جشنِ طرب قیدی چھٹ کر گلشن کے دوراہے پر پہنچے
با دیدۂ نم اس منزل پر یاروں سے جدائی باقی ہے
اک جنگ پہ آمادہ دنیا یہ راز کب تک سمجھے گی
طاقت کی دہائی فانی ہے، انساں کی اکائی باقی ہے
گردوں کے ستارے بجھنے دو، دنیا سے کہو ماتم نہ کرے
ذروں سے شعائیں پھوٹیں گی، مٹی کی خدائی باقی ہے
آنند نرائن ملا
No comments:
Post a Comment