جھوٹی تسلیوں پہ شب غم بسر ہوئی
اٹھی چمک جو زخم میں سمجھا سحر ہوئی
ہر ہر نفس چھری ہے لیے قطع شام ہجر
یا آج دم نکل ہی گیا یا سحر ہوئی
بدلیں جو کروٹیں تو زمانہ بدل گیا
جاتی ہے روشنی مِری آنکھوں کو چھوڑ کے
تارے چھپے وہ سو کے اٹھے وہ سحر ہوئی
پہلے یہ جانتا تھا کہ زخمی نہیں ہے دل
جب دے دیا رگوں نے لہو جب خبر ہوئی
کس منہ سے روؤں میں دل حسرت نصیب کو
جب مر گیا غریب تو مجھ کو خبر ہوئی
جاوید بوئے گل کو ہوا آ کے لے گئی
کلیوں کو غم ہوا نہ گلوں کو خبر ہوئی
جاوید لکھنوی
No comments:
Post a Comment