موسمِ ہجر ہے اِک کوہِ گراں، کیا سمجھے
عشق ہے کھیل نہیں ہے یہ میاں، کیا سمجھے
جس پہ گزری ہے وہ سمجھے گا گراں بارئ شب
داورِ صبح بجُز آہ و فغاں، کیا سمجھے
محشرِ زخم نمائی میں مسیحائی کیا
کیوں اٹھا کرتا ہے افسردہ گھروں سے سرِ شام
انجمِ صبح اُداسی کا دھواں، کیا سمجھے
کیوں سسکتا ہے ہر ایک کوچہ و در رات گئے
مسکراتا ہوا یہ شہرِ بُتاں، کیا سمجھے
شاہد ماہلی
No comments:
Post a Comment