سفر کی راہ میں اک ریگزار ایسا تھا
نظر نہ آتا تھا کچھ بھی غبار ایسا تھا
ہمارے قتل میں ہو جیسے ہاتھ اس کا بھی
ہماری موت پہ وہ سوگوار ایسا تھا
اسیرِ دائرۂ کائنات ہی رہی ذات
رہے نہ یاد ملے تھے جو زخم پچھلے برس
کچھ اب کے سال میں رنگِ بہار ایسا تھا
ہمیں جو چھاؤں کہیں ملتی تپتے صحرا میں
کہاں کوئی شجرِ سایہ دار ایسا تھا
اس آتی جاتی بہار و خزاں پہ تہمت کیا
کہ دل کا نخل ہی بے برگ و بار ایسا تھا
محسن زیدی
No comments:
Post a Comment