جب بچھڑتے تو وہ ملنے کی دعا کرتے تھے
ہم عجب لوگوں کی بستی میں رہا کرتے تھے
راستے سارے تِرے گھر کی طرف جاتے ہیں
ایسے قصے کبھی بچپن میں سنا کرتے تھے
جب سے معصوم ہوئے سارا مزا جاتا رہا
معجزوں پہ جنہیں قدرت تھی وہ ناپید ہوئے
سر پھرے دریا اشاروں سے رکا کرتے تھے
سائبانوں سے کبھی ان کا تعارف نہ رہا
کوئی موسم ہو بہرحال لڑا کرتے تھے
کبھی ملنے کے لیے ملتے نہ دیکھا ان کو
ایسی رسموں سے وہ پرہیز کیا کرتے تھے
آشفتہ چنگیزی
No comments:
Post a Comment