صدائیں قید کروں، آہٹیں چرا لے جاؤں
مہکتے جسم کی سب خوشبوئیں اڑا لے جاؤں
تِری امانتیں محفوظ رکھ نہ پاؤں گا
دوبارہ لوٹ کے آنے کی بس دعا لے جاؤں
‘کہا ہے دریا نے، ’وہ شرط ہار جائے گا
بلا کا شور ہے، طوفان آ گیا شاید
کہاں کا رختِ سفر، خود کو ہی بچا لے جاؤں
ابھی تو اور نہ جانے کہاں کہاں بھٹکوں
میں زندہ رہنے کا کوئ تو حوصلہ لے جاؤں
آشفتہ چنگیزی
No comments:
Post a Comment