پھولوں کے دِیے سانولی شاموں کے دھندلکے
مکتوب چلے آئے ہیں اس جان غزل کے
آوارہ ستاروں کی طرح خواب ہمارے
پچھتائے بہت محفلِ جاناں سے نکل کے
جیسے مِری راتوں کے گل اندام سویرے
زخموں کے دِیے، درد کے فانوس جلاؤ
آئی ہے سحر وادئ ظلمات سے چل کے
یہ دل کی زمیں زہرہ جبینوں کی زمیں ہے
اے گردشِ ایام! ذرا اور سنبھل کے
راتوں کا لہو دے کے بھی امیدِ سحر نے
لے آئے ہیں صدیوں کی رویت کی دھندلکے
ہر شب مِرے نزدیک چلے آتے ہیں جیسے
کچھ لوگ فسانے کے اجالوں سے نکل کے
جیسے مِرے گیتوں کے نئے موڑ پہ جامی
مجھ سے کوئی مِلتا ہے نیا روپ بدل کے
خورشید احمد جامی
No comments:
Post a Comment