Friday 20 November 2015

یہ درد و غم کا اداس موسم یہ وقت کے اجنبی قرینے

یہ درد و غم کا اداس موسم، یہ وقت کے اجنبی قرینے
نہ یاد محبوب کی گھٹا ہے نہ مست و ساغر بکف مہینے
گلے میں کرنوں کا ہار پہنے یہ کون آیا، یہ کون اترا
پگھل گیا درد کا اندھیرا، چمک اٹھے آرزو کی زینے
مِلا ہے جب کوئی زخم تازہ تو جگمگائے ہیں یوں ارادے
جلا دیا راستوں میں جیسے چراغِ عہدِ وفا کسی نے
نشاط کا دے چکی ہیں دھوکا کبھی کبھی میکدے کی شامیں
کہیں کہیں تشنگی رکی ہے، نئی امیدوں کا زہر پینے
چنے تھے جو میری آرزو نے حسین خوابوں کی سرزمیں پر
خیالِ جاناں کی رہگزر میں بچھا رہا ہوں وہ آبگینے
ابھی ابھی میری آرزو سے بہار تھی ہمکلام، جیسے
اداس کانٹوں کی بستیوں میں جگا دیا کیوں مجھے کسی نے
نہ جانے کتنے جواں ارادوں کا آئینہ بن گئے ہیں جامیؔ
دیار لوح و قلم میں الفاظ کے یہ ترشے ہوئے نگینے

خورشید احمد جامی

No comments:

Post a Comment