گزر گئے ہیں جو موسم کبھی نہ آئیں گے
تمام دریا کسی روز ڈوب جائیں گے
دعائیں لوریاں ماؤں کے پاس چھوڑ آئے
بس ایک نیند بچی ہے، خرید لائیں گے
سفر تو پہلے بھی کتنے کئے، مگر اس بار
الاؤ ٹھنڈے ہیں لوگوں نے جاگنا چھوڑا
کہانی ساتھ ہے، لیکن کسے سنائیں گے
سنا ہے آگے کہیں سمتیں بانٹی جاتی ہیں
تم اپنی راہ چُنو، ساتھ چل نہ پائیں گے
ہمارے نقش مٹانا بہت ہی مشکل ہے
ہزار دور ہوں، آشفتہؔ یاد آئیں گے
آشفتہ چنگیزی
No comments:
Post a Comment