Friday 20 November 2015

نشاط غم بھی نہیں نغمہ وفا بھی نہیں

نشاطِ غم بھی نہیں، نغمۂ وفا بھی نہیں
گزر رہا ہوں کہاں سے مجھے پتا بھی نہیں
جلا ہے کس کا لہو رات بھر چراغوں میں
غرورِ حسنِ  سحر اب یہ پوچھتا بھی نہیں
اسی نگاہ نے جینا سکھا دیا مجھ کو
مِری حیات کو اب جس کا آسرا بھی نہیں
وہی اداس فضائیں، بجھے بجھے تارے
شبِ فراق تو منظر کوئی نیا بھی نہیں
وہ ریگزارِ الم ہے یہ زندگی، جس میں
کوئی سراب نہیں، کوئی نقشِ پا بھی نہیں
تِرے قریب پہنچ کر بھی شوقِ آوارہ
یہ حال ہے کہ تجھے مُڑ کے دیکھتا بھی نہیں
حدیثِ دل کا بھلا احترام کون کرے
اس انجمن میں کوئی درد آشنا بھی نہیں
رہِ حیات میں کتنے ہی پیچ و خم آئے
بچھڑ گیا ہے کوئی، کب، کہاں پتا بھی نہیں
یہ اور بات کہ دل سن کے ہو گیا انجان
وگرنہ، تیری صدا دور کی صدا بھی نہیں
یہ ہو چلا ہے کہاں کیوں ابھی سے بیگانہ
ابھی تو آپ نے اپنا مجھے کہا بھی نہیں
کہیں رکا تو نہیں کاروانِ غم جامیؔ
کہ زندگی میں کوئی اضطراب سا بھی نہیں

خورشید احمد جامی

No comments:

Post a Comment