Friday 20 November 2015

شب ہجر آہ گزر گئی کہوں کس سے نالہ کدھر گیا

شبِ ہجر آہ گزر گئی، کہوں کس سے نالہ کدھر گیا
جو گزر گئی وہ گزر گئی، جو گزر گیا وہ گزر گیا
کوئ اپنے بچنے کا ڈھب نہیں، کوئی زندگی کا سبب نہیں
مِرے پاس دل بھی تو اب نہیں، وہ اُدھر گیا، یہ اِدھر گیا
کوئی درد ہو تو دوا کروں، نہ بنے دوا تو دعا کروں
اُسے کیا کہوں، اِسے کیا کروں کہ میں ان کے دل سے اتر گیا
اُسے دل لگی کا مزا مِلا، اُسے عاشقی کا مزا مِلا
اُسے زندگی کا مزا مِلا، جو تِری اداؤں پہ مر گیا
تِرے ظلم اور ستم سہے، تِرے جانثار بھی ہم رہے
نہ عدُو کہ جس کو ہر اک کہے کہ تِری جفاؤں سے ڈر گیا
رہے کیوں نہ سینے میں دم خفا، یہ نیا ستم، یہ نئی جفا
کہوں کیا صفیؔ کوئی بے وفا مِرے دل کو لے کے مُکر گیا

صفی اورنگ آبادی

No comments:

Post a Comment